Saturday, April 22, 2017

اَن پڑھ سرجن



اَن پڑھ سرجن


کیپ ٹاﺅن کی میڈیکل یونیورسٹی کو طبی دنیا میں ممتاز حیثیت حاصل ہے۔ دنیا کا پہلا بائی پاس آپریشن اسی یونیورسٹی میں ہوا تھا۔ اس یونیورسٹی نے تین سال پہلے ایک ایسے سیاہ فام شخص کو ”ماسٹر آف میڈیسن“ کی اعزازی ڈگری دی جس نے زندگی میں کبھی سکول کا منہ نہیں دیکھا تھا۔ جو انگریزی کا ایک لفظ پڑھ سکتا تھا اور نہ ہی لکھ سکتا تھا لیکن 2003ءکی ایک صبح دنیا کے مشہور سرجن پروفیسر ڈیوڈ ڈینٹ نے یونیورسٹی کے آڈیٹوریم میں اعلان کیا   
ھم آج ایک ایسے شخص کو میڈیسن کی اعزازی ڈگری دے رہے ہیں جس نے دنیا
 میں سب سے زیادہ سرجن پیدا کیے، جو ایک غیر معمولی استاد اور ایک حیران کن سرجن ہے اور جس نے میڈیکل سائنس اور انسانی دماغ کو حیران کر دیا۔ اس اعلان کے ساتھ ہی پروفیسر نے ہیملٹن کا نام لیا اور پورے ایڈیٹوریم نے کھڑے ہو کراس کا استقبال کیا ۔ یہ اس یونیورسٹی کی تاریخ کا سب سے بڑا استقبال تھا۔
ہیملٹن کیپ ٹاﺅن کے ایک دور دراز گاﺅں سنیٹانی میں پیدا ہوا۔ اس کے والدین چرواہے تھے، وہ بکری کی کھال پہنتا تھا اور پہاڑوں پر سارا سارا دن ننگے پاﺅں پھرتا تھا، بچپن میں اس کا والد بیمار ہوگیا لہٰذاوہ بھیڑ بکریاں چھوڑ کر کیپ ٹاﺅن آگیا۔ 
ان دنوں کیپ ٹاﺅن یونیورسٹی میں تعمیرات جاری تھیں۔ وہ یونیورسٹی میں مزدور بھرتی ہوگیا۔ اسے دن بھر کی محنت مشقت کے بعد جتنے پیسے ملتے تھے ،وہ یہ پیسے گھر بھجوا دیتاتھا اور خود چنے چبا کر کھلے گراﺅنڈ میں سو جاتاتھا۔
وہ برسوں مزدور کی حیثیت سے کام کرتا رہا۔ تعمیرات کا سلسلہ ختم ہوا تو وہ یونیورسٹی میں مالی بھرتی ہوگیا۔ اسے ٹینس کورٹ کی گھاس کاٹنے کا کام ملا، وہ روز ٹینس کورٹ پہنچتا اور گھاس کاٹنا شروع کر دیتا ، و ہ تین برس تک یہ کام کرتا رہا پھر اس کی زندگی میں ایک عجیب موڑ آیا اور وہ میڈیکل سائنس کے اس مقام تک پہنچ گیا جہاںآج تک کوئی دوسرا شخص نہیں پہنچا۔ یہ ایک نرم اور گرم صبح تھی“۔
 ”پروفیسر رابرٹ جوئز زرافے پرتحقیق کر رہے تھے
وہ یہ دیکھنا چاہتے تھے جب زرافہ پانی پینے کے لیے گردن جھکاتا ہے تو اسے غشی کا دورہ کیوں نہیں پڑتا، انہوں نے آپریشن ٹیبل پر ایک زرافہ لٹایا، اسے بے ہوش کیا لیکن جوں ہی آپریشن شروع ہوا زرافے نے گردن ہلا دی چنانچہ انہیں ایک ایسے مضبوط شخص کی ضرورت پڑ گئی جو آپریشن کے دوران زرافے کی گردن جکڑکر رکھے۔ پروفیسر تھیٹر سے باہر آئے، سامنے ہیملٹن گھاس کاٹ رہا تھا، پروفیسر نے دیکھا وہ ایک مضبوط قد کاٹھ کا صحت مند جوان ہے۔ انہوں نے اسے اشارے سے بلایا اور اسے زرافے کی گردن پکڑنے کا حکم دے دیا۔ ہیملٹن نے گردن پکڑ لی، یہ آپریشن آٹھ گھنٹے جاری رہا۔ اس دوران ڈاکٹر چائے اور کافی کے وقفے کرتے رہے لیکن ہیملٹن زرافے کی گردن تھام کر کھڑا رہا۔ آپریشن ختم ہوا تو وہ چپ چاپ باہر نکلا اور جا کر گھاس کاٹنا شروع کردی۔ 
دوسرے دن پروفیسر نے اسے دوبارہ بلا لیا، وہ آیا اور زرافے کی گردن پکڑ کر کھڑا ہوگیا، اس کے بعد یہ اس کی روٹین ہوگئی وہ یونیورسٹی آتا آٹھ دس گھنٹے آپریشن تھیٹر میں جانوروں کو پکڑتا اور اس کے بعد ٹینس کورٹ کی گھاس کاٹنے لگتا، وہ کئی مہینے دوہراکام کرتا رہا اور اس نے اس ڈیوٹی کاکسی قسم کااضافی معاوضہ طلب کیااور نہ ہی شکایت کی۔ پروفیسر رابرٹ جوئز اس کی استقامت اور اخلاص سے متاثر ہوگیا اور اس نے اسے مالی سے ”لیب اسسٹنٹ“ بنا دیا۔
ہیملٹن کی پروموشن ہوگئی۔
وہ اب یونیورسٹی آتا، آپریشن تھیٹر پہنچتا اور سرجنوں کی مدد کرتا۔ یہ سلسلہ بھی برسوں جاری رہا۔ 1958ءمیں اس کی زندگی میں دوسرا اہم موڑ آیا۔ اس سال ڈاکٹربرنارڈ یونیورسٹی آئے اور انہوں نے دل کی منتقلی کے آپریشن شروع کردیئے۔ ہیملٹن ان کا اسسٹنٹ بن گیا، وہ ڈاکٹر برنارڈ کے کام کو غور سے دیکھتا رہتا، ان آپریشنوں کے دوران وہ اسسٹنٹ سے ایڈیشنل سرجن بن گیا۔ اب ڈاکٹر آپریشن کرتے اور آپریشن کے بعد اسے ٹانکے لگانے کا فریضہ سونپ دیتے، وہ انتہائی شاندار ٹانکے لگاتا تھا، اس کی انگلیوں میں صفائی اور تیزی تھی، اس نے ایک ایک دن میں پچاس پچاس لوگوں کے ٹانکے لگائے۔ وہ آپریشن تھیٹر میں کام کرتے ہوئے سرجنوں سے زیادہ انسانی جسم کو سمجھنے لگا چنانچہ بڑے ڈاکٹروں نے اسے جونیئر ڈاکٹروں کو سکھانے کی ذمہ داری سونپ دی۔ وہ اب جونیئر ڈاکٹروں کو آپریشن کی تکنیکس سکھانے لگا۔
وہ آہستہ آہستہ یونیورسٹی کی اہم ترین شخصیت بن گیا۔ وہ میڈیکل سائنس کی اصطلاحات سے ناواقف تھا لیکن وہ دنیا کے بڑے سے بڑے سرجن سے بہترسرجن تھا۔
 پھر ۱۹۷۰  میں اس کی زندگی میں تیسرا موڑ آیا، اس سال جگر پر تحقیق شروع ہوئی تو اس نے آپریشن کے دوران جگر کی ایک ایسی شریان کی نشاندہی کردی جس کی وجہ سے جگر کی منتقلی آسان ہوگئی۔ اس کی اس نشاندہی نے میڈیکل سائنس کے بڑے دماغوں کو حیران کردیا، آج جب دنیا کے کسی کونے میں کسی شخص کے جگر کا آپریشن ہوتا ہے اور مریض آنکھ کھول کر روشنی کو دیکھتا ہے تو اس کامیاب آپریشن کا ثواب براہ راست ہیملٹن کو چلا جاتا ہے،اس کا محسن ہیملٹن ہوتا ہے
ہیملٹن نے یہ مقام اخلاص اور استقامت سے حاصل کیا۔ وہ 50 برس کیپ ٹاﺅن یونیورسٹی سے وابستہ رہا، ان 50 برسوں میں اس نے کبھی چھٹی نہیں کی۔ وہ رات تین بجے گھر سے نکلتا تھا، 14 میل پیدل چلتا ہوا یونیورسٹی پہنچتا اور ٹھیک چھ بجے تھیٹر میں داخل ہو جاتا۔ لوگ اس کی آمدورفت سے اپنی گھڑیاں ٹھیک کرتے تھے، ان پچاس برسوں میں اس نے کبھی تنخواہ میں اضافے کا مطالبہ نہیں کیا، اس نے کبھی اوقات کار کی طوالت اور سہولتوں میں کمی کا شکوہ نہیں کیا لہٰذا پھر اس کی زندگی میں ایک ایسا وقت آیا جب اس کی تنخواہ اور مراعات یونیورسٹی کے وائس چانسلر سے زیادہ تھیں اور اسے وہ اعزاز ملا جو آج تک میڈیکل سائنس کے کسی شخص کو نہیں ملا۔
وہ میڈیکل ہسٹری کاپہلا ان پڑھ استاد تھا۔ وہ پہلا ان پڑھ سرجن تھا جس نے زندگی میں تیس ہزار سرجنوں کو ٹریننگ دی، وہ 2005ءمیں فوت ہوا تو اسے یونیورسٹی میں دفن کیاگیا اور اس کے بعدیونیورسٹی سے پاس آﺅٹ ہونے والے سرجنوں کے لیے لازم قرار دے دیا گیا وہ ڈگری لینے کے بعد اس کی قبر پر جائیں، تصویر بنوائیں اور اس کے بعد عملی زندگی میں داخل ہوجائیں.

Friday, March 10, 2017

دعائیں

 
 میں نے ان سے ایک سوال پوچھا ’’اللہ تعالیٰ سے بات منوانے کا بہترین طریقہ کیا ہے؟‘‘ وہ مسکرائے‘ قبلہ رو ہوئے‘ پاؤں لپیٹے‘ رانیں تہہ کیں‘ اپنے جسم کا سارا بوجھ رانوں پر شفٹ کیا اور مجھ سے پوچھا ’’تمہیں اللہ سے کیا چاہیے؟‘‘ ہم دونوں اس وقت جنگل میں بیٹھے تھے‘ حبس اور گرمی کا موسم تھا‘ سانس تک لینا مشکل تھا‘ میں نے اوپر دیکھا‘ اوپر درختوں کے پتے تھے اور پتوں سے پرے گرم‘ پگھلتا ہوا سورج تھا‘ میں نے مسکرا کر عرض کیا ’’ اگر بادل آ جائیں‘ ذرا سی ٹھنڈی ہوائیں چلنے لگیں تو موسم اچھا ہو جائے گا‘‘ وہ ہنسے اور آہستہ سے بولے ’’لو دیکھو‘‘ وہ اس کے بعد بیٹھے بیٹھے رکوع میں جھکے اور پنجابی زبان میں دعا کرنے لگے ’’اللہ جی! کاکے کی دعا قبول کر لے‘ اللہ جی! ہماری سن لے‘‘ وہ دعا کرتے جاتے تھے اور روتے جاتے تھے‘ پہلے ان کی پلکیں گیلی ہوئیں‘ پھر ان کے منہ سے سسکیوں کی آوازیں آئیں اور پھر ان کی آنکھیں چھم چھم برسنے لگیں‘ وہ بری طرح رو رہے تھے۔
 میں ان کی حالت دیکھ کر پریشان ہو گیا‘ میں نے زندگی میں بے شمار لوگوں کو روتے دیکھا لیکن ان کا رونا عجیب تھا‘ وہ ایک خاص ردھم میں رو رہے تھے‘ منہ سے سسکی نکلتی تھی‘ پھر آنکھیں برستیں تھیں اور پھر ’’اللہ جی! ہماری سن لے‘‘ کا راگ الاپ بنتا تھا‘ میں پریشانی‘ استعجاب اور خوف کے ملے جلے تاثرات کے ساتھ انھیں دیکھ رہا تھا‘ وہ دعا کرتے جاتے تھے‘ روتے جاتے تھے اور سسکیاں بھرتے جاتے تھے‘ میں نے پھر وہاں ایک عجیب منظر دیکھا‘ مجھے ہوا ٹھنڈی ہوتی ہوئی محسوس ہوئی‘ آسمان پر اسی طرح گرم سورج چمک رہا تھا لیکن جنگل کی ہوا میں خنکی بڑھتی جا رہی تھی‘ میری پیشانی‘ سر اور گردن کا پسینہ خشک ہو گیا‘ میرے سینے اور کمر پر رینگتے ہوئے قطرے بھی غائب ہو گئے‘ میں ٹھنڈی ہوا کو محسوس کر رہا تھا اور حیران ہو رہا تھا‘ میرے دیکھتے ہی دیکھتے پتوں نے تالیاں بجانا شروع کر دیں‘ شاخیں ایک دوسرے کے ساتھ الجھنے لگیں‘ پودے ہوا کی موسیقی پر ناچنے لگے اور پھر بادل کا ایک ٹکڑا کہیں سے آیا اور سورج اور ہمارے سر کے درمیان تن کر ٹھہر گیا‘ وہ رکے‘ دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے اور شکر ادا کرنے لگے۔
 وہ دیر تک ’’اللہ جی! آپ کا بہت شکر ہے‘ اللہ جی! آپ کی بہت مہربانی ہے‘‘ کہتے رہے‘ وہ دعا سے فارغ ہوئے‘ ذرا سا اوپر اٹھے‘ ٹانگیں سیدھی کیں اور منہ میری طرف کر کے بیٹھ گئے‘ ان کی سفید داڑھی آنسوؤں سے تر تھی‘ انھوں نے کندھے سے رومال اتارا‘ داڑھی خشک کی اور پھر بولے ’’ دیکھ لو! اللہ نے اپنے دونوں بندوں کی بات مان لی‘‘ میں نے ان کا ہاتھ پکڑا‘ چوما اور پھر عرض کیا ’’باباجی لیکن اللہ سے بات منوانے کا فارمولہ کیا ہے‘ اللہ کب‘ کیسے اور کیا کیا مانتا ہے؟‘‘ وہ مسکرائے‘ شہادت کی دونوں انگلیاں آنکھوں پر رکھیں اور پھر بولے ’’ یہ دو آنکھیں فارمولہ ہیں‘‘ میں خاموشی سے ان کی طرف دیکھتا رہا‘ وہ بولے ’’میں نے یہ فارمولہ اپنی ماں سے سیکھا‘ میں بچپن میں جب بھی اپنی سے کوئی بات منوانا چاہتا تھا تو میں رونے لگتا تھا‘ ماں سے میرا رونا برداشت نہیں ہوتا تھا‘ وہ تڑپ اٹھتی تھی‘ وہ مجھے گود میں بھی اٹھا لیتی تھی‘ مجھے چومتی بھی تھی‘ میری آنکھیں بھی صاف کرتی تھی اور میری خواہش‘ میری ضرورت بھی پوری کرتی تھی۔
 میں ماں کی اس کمزوری کا جی بھر کر فائدہ اٹھاتا تھا‘ میں رو رو کر اس سے اپنی پسند کے کھانے بھی بنواتا تھا‘ اس سے نئے کپڑے اور نئے جوتے بھی لیتا تھا اور کھیلنے کے لیے گھر سے باہر بھی جاتا تھا‘‘ وہ رکے اور پھر آہستہ سے بولے ’’میں نے جب مولوی صاحب سے قرآن مجید پڑھنا شروع کیا تو مولوی صاحب نے ایک دن فرمایا ’’ اللہ تعالیٰ انسان سے ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرتا ہے‘ یہ فقرہ سیدھا میرے دل میں لگا اور میں نے سوچا‘ میں رو کر اپنی ایک ماں سے سب کچھ منوا لیتا ہوں‘ اللہ اگر مجھ سے ستر ماؤں جتنی محبت کرتا ہے تو پھر میں رو رو کر اس سے کیا کیا نہیں منوا سکتا‘‘ وہ رکے اور بولے ’’ بس وہ دن ہے اور آج کا دن ہے‘ میں روتا ہوں‘ اللہ کی ذات میں ستر ماؤں کی محبت جگاتا ہوں اور میری ہر خواہش‘ میری ہر دعا قبول ہو جاتی ہے‘‘۔
 ہمارے اوپر بادل کا خیمہ تنا تھا‘ جنگل کی ہوا میں خنکی تھی اور وہ اس وسیع پس منظر میں پھولوں کی خوشبودار جھاڑی بن کر بیٹھے تھے‘ میں نے پوچھا ’’حضور ہم زندگی بھر دعائیں کرتے ہیں‘ ہم میں سے اکثر لوگ رو رو کر بھی دعائیں کرتے ہیں لیکن یہ دعائیں قبول نہیں ہوتیں‘ یہ منظور نہیں ہوتیں‘‘ وہ مسکرائے اور آہستہ سے بولے ’’ یہ ہو نہیں سکتا‘ بندہ ہو‘ وہ رو رو کر دعا کرے اور ستر ماؤں سے زیادہ محبت کرنے والا خدا اس کی یہ دعا قبول نہ کرے‘ یہ ممکن نہیں‘ میرے بچے! یہ ہو ہی نہیں سکتا‘‘ میں نے عرض کیا ’’آپ کی بات بجا حضور لیکن میں نے زندگی میں بے شمار لوگوں کو دعا کے باوجود محروم دیکھا‘‘ وہ ہنسے‘ ان کی ہنسی پتوں کی تالیوں کے ساتھ مل کر راگ بن گئی‘ وہ بولے ’’اللہ کی نظر میں دعائیں تین قسم کی ہوتی ہیں‘ دعاؤں کی پہلی قسم وہ ہوتی ہے جس میں اللہ کو نظام قدرت میں کوئی تبدیلی نہیں کرنی پڑتی‘ میں بیمار ہوں‘ اللہ شفاء دیدے‘ میں بھوکا اور پیاسا ہوں‘ اللہ تعالیٰ میرے لیے پانی اور کھانے کا بندوبست کر دے‘ میرا کوئی پیارا بچھڑ گیا‘ اللہ اسے مجھ سے ملا دے‘ لوگ مجھے نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔
 اللہ تعالیٰ مجھے حاسدوں سے محفوظ کر دے‘ میں ترقی کرنا چاہتا ہوں‘ اللہ تعالیٰ میری پروموشن کے راستے کی رکاوٹیں ہٹا دے اور لوگ مجھے قتل کرنا چاہتے ہیں‘ یہ مجھ سے مال و دولت‘ گھر بار اور جائیداد چھیننا چاہتے ہیں‘ اللہ مجھے بچا لے‘ یہ وہ تمام دعائیں ہیں جنھیں قبول کرتے وقت اللہ تعالیٰ کو نظام کائنات میں کوئی تبدیلی نہیں کرنی پڑتی‘ ہم ساڑھے چار ہزار بیماریاں لے کر پیدا ہوتے ہیں‘ ان تمام بیماریوں کا علاج ہمارے اندر موجود ہے‘ اللہ تعالیٰ ہماری دعا سنتا ہے‘ شفاء کے جراثیم ایکٹو ہوتے ہیں اور یہ بیماری کے جراثیم کو نگل جاتے ہیں‘ اللہ تعالیٰ ہماری دعا سن کر ہمارے حاسدوں‘ ہمارے دشمنوں اور ہمارے باسز کے دل میں ہمارے لیے رحم کا جذبہ بھی پیدا کر دیتا ہے اور یوں ہم دنیاوی نقصان سے بھی بچ جاتے ہیں‘‘ وہ رکے‘ اوپر دیکھا اور بادل کی طرف اشارہ کر کے بولے ’’یہ بادل نظام کائنات کا حصہ ہے‘ اللہ تعالیٰ نے اسے چند میل ادھر کھسکا دیا‘ ہمارا کام بھی ہو گیا اور اللہ کو نظام کائنات میں بھی کوئی ترمیم‘ کوئی تبدیلی نہیں کرنی پڑی لیکن میں اگر اللہ تعالیٰ سے کہوں یا باری تعالیٰ آپ دنیا سے بادل ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم کر دیں یا دنیا کے سارے کوے مر جائیں تو اللہ تعالیٰ شاید یہ دعا قبول نہ کرے۔
 خواہ میں کتنا ہی رو لوں‘ کتنا ہی گڑگڑا لوں یا میری جگہ کوئی ولی یا کوئی پیغمبر ہی کیوں نہ ہو‘ کیوں؟ کیونکہ اس کے لیے کائنات کا وہ سارا نظام تبدیل کرنا پڑے گا جس سے اربوں جانداروں کی زندگی منسلک ہے اور اللہ تعالیٰ کسی کے لیے یہ سسٹم تبدیل نہیں کرتا‘‘ وہ رکے اور دوبارہ بولے ’’دعاؤں کی دوسری قسم مالی اور سماجی عروج سے متعلق ہوتی ہے‘ ہم میں سے بعض نادار اور غریب لوگ سیٹھ‘ نواب یا زمیندار بننے کی دعا کرتے ہیں‘ ہم میں کچھ لوگ بادشاہ‘ وزیر‘ وزیر اعظم یا صدر بننے کی دعا کرتے ہیں‘ یہ لوگ پوری زندگی یہ دعا کرتے رہتے ہیں لیکن یہ سیٹھ‘ نواب‘ زمیندار‘ صدر‘ وزیر اعظم‘ وزیر اور بادشاہ نہیں بنتے‘‘۔ وہ رکے اور بولے ’’ کیا ان کی دعائیں رائیگاں چلی گئیں‘‘ میں نے عرض کیا ’’شاید‘‘۔ وہ بولے ’’ نہیں‘ اس نوعیت کی دعائیں کرنے والے لوگ دو قسم کے ہوتے ہیں‘ ایک‘ وہ جو دعا میں سیریس نہیں ہوتے‘ جو اس خلوص کے ساتھ دعا نہیں کرتے جس سے ان کی آنکھیں برسات بن جائیں اور سانسیں ہچکیاں اور دوسرے وہ لوگ ہوتے ہیں جو اپنی دعا کے ایک ایک حرف کے ساتھ مخلص ہوتے ہیں‘ جن کے آنسو اور سسکیاں پہلے نکلتی ہیں اور حرف بعد میں‘ پہلے لوگوں کی دعائیں عموماً ضایع ہو جاتی ہیں‘ کیوں؟ کیونکہ یہ اس طرح نہیں مانگتے جس طرح بچہ ماں سے مانگتا ہے جب کہ دوسرے لوگوں کی دعائیں قبول ہو جاتی ہیں لیکن ان دعاؤں کا اثر ان کی زندگی میں نہیں‘ ان کے بچوں اور پوتوں کی حیات میں نظر آتا ہے۔
 آپ کبھی تحقیق کر کے دیکھ لیں‘ خوش حالی کی دعا کرنے والے لوگوں کے بچے یا پوتے ضرور سیٹھ بن جاتے ہیں‘ وزیر‘ وزیر اعظم‘ صدر یا آرمی چیف بننے والے لوگوں کے نیک والدین عمر بھر ان عہدوں کی دعا کرتے رہے تھے‘ کارخانوں‘ زمینوں‘ کمپنیوں‘ کوٹھیوں‘ کاروں اور جہازوں کی دعا کرنے والے لوگ جب دنیا سے رخصت ہونے لگے تو ان کے بچے یا پوتے ان ساری نعمتوں کے مالک تھے‘ یہ کیا ہے؟ یہ وہ ساری دعائیں ہیں جو لوگ کرتے رہے‘ اللہ نے سن لیں اور ان کا ثمر ان کی اولاد کے کھاتے میں لکھ دیا چنانچہ بزرگ کہتے ہیں‘ آپ جب بھی اللہ سے اپنے لیے کچھ مانگیں‘ آپ اس میں اپنی اولاد کو ضرور شامل کریں کیونکہ ہماری 80 فیصد دعاؤں کا نتیجہ ہماری اولاد میں ظاہر ہوتا ہے‘‘۔
 وہ رکے اور پھر بولے ’’ ہماری تیسری قسم کی دعائیں عزت‘ شہرت اور نیک نامی سے متعلق ہوتی ہیں‘ آپ جب بھی رو کر یہ دعا کریں گے‘ اللہ تعالیٰ یہ بھی قبول کر لے گا لیکن ان کا نتیجہ بھی دوسری یا تیسری نسل میں ظاہر ہوتا ہے‘ آپ دنیا کے تمام نامور‘ مشہور اور معروف لوگوں کا پروفائل نکال لو‘ آپ کو اس کا والد یا والدہ یا دادا‘ دادی یا پھر نانا‘ نانی پرہیز گار اور متقی ملیں گے‘ آپ تحقیق کرنا‘ آپ کو یہ جانتے دیر نہیں لگے گی‘ ان کے بزرگ اللہ سے نیک نامی‘ شہرت اور عزت کی دعا کرتے تھے اور یہ وہ دعا تھی جس نے بعد ازاں نیوٹن کو نیوٹن‘ شیکسپیئر کو شیکسپیئر‘ آئن سٹائن کو آئن سٹائن اور مدر ٹریسا کو مدر ٹریسا بنایا‘‘ وہ رکے اور پھر ہنس کر بولے ’’ دعا کبھی ضایع نہیں ہوتی‘ یہ ضرور قبول ہوتی ہے لیکن مانگنے والے پر لازم ہوتا ہے یہ بچہ بن کر مانگے‘ یہ اس طرح مانگے جس طرح تین چار سال کا بچہ اپنی ماں سے مانگتا ہے‘ آپ نے اگر اللہ تعالیٰ میں موجود ستر ماؤں کا جذبہ جگا لیا تو پھر دنیا کی کوئی طاقت‘ کوئی رکاوٹ اللہ تعالیٰ کی رحمت کو نہیں روک سکے گی‘‘ وہ رکے تو بارش شروع ہو گئی‘ ہم اٹھے‘ ہم نے اپنی دری جھاڑی‘ تہہ کی اور جنگل سے باہر آ گئے‘ ہم گاڑی تک پہنچتے پہنچتے بری طرح بھیگ چکے تھے‘ اللہ تعالیٰ کی رحمت تاحد نظر برس رہی تھی

Wednesday, March 8, 2017

گوئٹے اور نغمہ محمدی ﷺ


Song for Mohammedﷺ

گوئٹے سے تو ہم میں سے بہت سے واقف ہیں ۔ لیکن اس نے ایک نعت مبارکہ بھی کہی اس کا شاید بہت کم احباب کو علم ہوگا۔  گوئٹے نے نعت جرمن زبان میں لکھی تھی ۔ جرمن سے انگلش میں ترجمہ ہوا اور انگلش سے ڈاکٹر شان الحق حقی نے اردو میں منظوم ترجمہ کیا ۔ یہ نعت اور یہ ترجمہ خاصے کی شے ہے ۔

نغمہ محمدئﷺ
شاعر : جان وولف وین گوئٹے
انگلش ترجمہ : ایملی ایزسٹ
اردو ترجمہ : ڈاکٹر شان الحق حقی
Song for Mohammed ﷺ
 By: Johann Wolfgang von Goethe

Behold this rocky spring,
bright with joy
like a twinkling star;
above the clouds
its youth was nourished
by good spirits
among the cliffs in the bushes.
Fresh as a youth
it dances out of the cloud
down to the marble rocks,
cheering again
to the sky.
Along mountainous paths
it chases after colorful pebbles,
and with the step of a young leader
its companion-springs journey
with it onward.
Below in the valley
flowers appear from its footprints,
and the meadow
derives life from its breath.
But no shaded valley can stop it,
no flower,
clasping its knees
and imploring it with loving eyes:
toward the Plains it presses its course,
twisting like a snake.
Brooks nuzzle up
sociably. Now it treads
into the Plain, resplendent with silver,
and the Plain grows silver too,
and the rivers of the Plain
and the brooks of the mountains
cheer and shout: "Brother!
Brother, take your brothers with,
take them with you to your ancient father,
to the eternal ocean,
whose outstretched arms
await us,
who, ah! has opened them in vain
to embrace his yearning children;
for the bleak wasteland's
greedy sand devours us; the sun above
sucks up all our blood; a hill
clogs us into a pool! Brother,
take your brothers from this Plain,
take your brothers from the mountains,
take them with you to your ancient father!
Come all of you! -
and now [the spring] swells
more grandly: an entire race
lifts the prince up high!
And in rolling triumph
it gives names to the lands and cities
that grow in its path.
Irresistibly it rushes onward,
leaving a wake of flaming-tipped towers
and houses of marble - creations
of its bounty.
Like Atlas it bears cedar houses
upon its giant's shoulders;
over its head, the wind noisily
blows a thousand flags
as testimony of its glory.
And so it brings its brothers,
its treasures, its children,
effervescent with joy,
to the waiting parent's bosom.

*Translation from German to English by Emily Ezust
نغمہ ء ِ محمدیﷺ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ پاکیزہ چشمہ
جواوجِ فلک سے چٹانوں پہ اترا
سحابوں سے اوپر بلند آسمانوں پہ جولاں ملائک کی چشم نگہداشت کے سائے سائے
چٹانوں کی آغوش میں عہد برنائی تک جوئے جولاں بنا
چٹانوں سے نیچے اترتے اترتے
وہ کتنے ہی صد رنگ اَن گھڑ خزف ریزے
آغوشِ شفقت میں اپنی سمیٹے
بہت سے سسکتے ہوئے رینگتے، سُست کم مایہ سوتوں کو چونکاتا ، للکارتا ساتھ لیتا ہوا خوش خراماں چلا
بے نمو وادیاں لہلہانے لگیں
پھول ہی پھول چاروں طرف کھل اٹھے
جس طرف اُس ﷺ کا رخ پھر گیا
اُس ﷺ کے فیضِ قدم سے بہار آگئی
یہ چٹانوں کے پہلو کی چھوٹی سی وادی ہی کچھ
اُس ﷺ کی منزل نہ تھی
وہ تو بڑھتا گیا
کوئی وادی ، کوئی دشت، کوئی چمن، گلستاں، مرغزار
اُس ﷺ کے پائے رواں کو نہ ٹھہرا سکا
اُس ﷺ کے آگے ابھی اور صحرا بھی تھے
خشک نہريں بھی تھیں ، اُترے دریا بھی تھے ۔
سیلِ جاں بخش کے ، اُس ﷺ کے سب منتظر
جوق در جوق پاس اُس ﷺ کے آنے لگے
شور آمد کا اُسﷺ کی اٹھانے لگے
راہبر ﷺ ساتھ ہم کو بھی لیتے چلو
کب سے تھیں پستیاں ہم کو جکڑے ہوئے
راہ گھیرے ہوئے ، پاؤں پکڑے ہوئے
یاد آتا ہے مسکن پرانا ہمیں
آسمانوں کی جانب ہے جانا ہمیں
ورنہ یونہی نشیبوں میں دھنس جائیں گے
جال میں اِن زمینوں کے پھنس جائیں گے
اپنے خالق کی آواز کانوں میں ہے
اپنی منزل وہيں آسمانوں میں ہے
گرد آلود ہیں پاک کر دے ہمیں
آ ۔ ہم آغوش ِ افلاک کردے ہمیں
وہ رواں ہے ، رواں ہے ، رواں اب بھی ہے
ساتھ ساتھ اُس کے اک کارواں اب بھی ہے
شہر آتے رہے شہر جاتے رہے
اُس ﷺ کے دم سے سبھی فیض پاتے رہے
اُس ﷺ کے ہر موڑ پر ایک دنیا نئی
ہر قدم پر طلوع ایک فردا نئی
قصر ابھرا کيے خواب ہوتے گئے
کتنے منظر تہہ ِ آب ہوتے گئے
شاہ اور شاہیاں خواب ہوتی گئیں
عظمتیں کتنی نایاب ہوتی گئیں
اُس ﷺ کی رحمت کا دھارا ہے اب بھی رواں
از زمیں تا فلک
از فلک تا زمیں
از ازل تا ابد جاوداں ، بیکراں
دشت و در ، گلشن و گل سے بے واسطہ
فیض یاب اس سے کل
اور خود کل سے بے واسطہ


ٍاز: شان الحق حقی

Sunday, December 4, 2016

جنازہ، بادشاہ اور میت

جنازہ، بادشاہ اور میت  !!


بادشاہ سلطان مراد نے ایک رات بڑی گھٹن اور تکلیف میں گزاری ، لیکن وہ اس کا سبب نہ جان سکا ،
اس نے اپنے سیکورٹی انچارج کو بلایا اس کو اپنی بےچینی کی خبر دی ، بادشاہ کی عادت تھی ، کہ وہ بھیس بدل کر عوام کی خفیہ خبرگیری کرتا تھا ،
کہا چلو چلتے ہیں اور کچھ وقت لوگوں میں گزارتے ھیں ، شہر کے ایک کنارے پر پہنچے تو دیکھا ایک آدمی گرا پڑا ھے ، بادشاہ نے اسے ھلا کر دیکھا تو مردہ انسان تھا ،
 لوگ اس کے پاس سے گزرے جارھے تھے ، بادشاہ نے لوگوں کو آواز دی کہ ادھر آؤ بھئی لوگ جمع ھوگئے اور وہ بادشاہ کو پہچان نہ سکے ،
پوچھا کیا بات ھے بادشاہ نے کہا آدمی مرا ھوا ھے اس کو کسی نے کیوں نہیں اٹھایا کون ھے یہ اور اس کے گھر والے کہاں ھیں لوگوں نے کہا یہ زندیق شخص ھے بڑا شرابی اور زانی آدمی تھا ،
بادشاہ نے کہا کیا یہ امت محمدیہ میں سے نہیں ھے ؟
چلو اس کو اٹھاؤ اور اس کے گھر لے چلو. لوگوں نے میت گھر پہنچا دی.
 اس کی بیوی نے خاوند کی لاش دیکھی تو رونے لگی. لوگ چلے گئے بادشاہ اور اس کا سیکورٹی انچارج وہیں کھڑے عورت کا رونا سنتے رھے وہ کہہ رھی تھی ،
میں گواہی دیتی ھوں بیشک تو اللہ تعالٰی کا ولی ھے اور نیک لوگوں میں سے ھے. مراد بڑا متعجب ھوا یہ کیسے ولی ھو سکتا ہے لوگ تو اس کے متعلق یہ یہ باتیں کر رھے تھے اور اس کی میت کو ھاتھ لگانے کو تیار نہ تھے ، اس کی بیوی نے کہا مجھے بھی لوگوں پر یہی توقع تھی اصل حقیقت یہ ہے کہ میرا خاوند ھر روز شراب خانہ جاتا جتنی ھو سکے شراب خریدتا اور گھر لا کر گڑھے میں بہا دیتا اور کہتا کہ چلو کچھ تو گناھوں کا بوجھ مسلمانوں سے ھلکا ھوا ، اسی طرح رات کو ایک طوائف کے پاس جاتا اور اس کو ایک رات کی اجرت دے دیتا اور اس کو کہتا کہ اپنا دروازہ بند کرلے کوئی تیرے پاس نہ آئے ، گھر آکر کہتا الحمدللہ آج اس عورت کا اور نوجوان مسلمانوں کے گناھوں کا میں نے کچھ بوجھ ھلکا کر دیا ھے ،
لوگ اس کو شراب خانے اور طوائف کے گھر آتا جاتا دیکھتے تھے ، میں اسے کہتی تھی یاد رکھ جس دن تو مر گیا لوگوں نے نہ تجھے غسل دینا ہے نہ تیری نماز جنازہ پڑھنی ھے اور نہ تجھے دفنانا ھے ، وہ مسکرا دیتا اور مجھے کہتا کہ گھبرا مت تو دیکھے گی کہ میرا جنازہ وقت کا بادشاہ ، علماء اور اولیاء پڑھیں گے ،
بادشاہ رو پڑا اور کہنے لگا میں سلطان مراد ھوں ، کل ھم اس کو غسل دیں گے ھم اس کی نماز جنازہ پڑھیں گے اور ھم اس کی تدفین کریں گے چنانچہ اس کا جنازہ بادشاہ وقت، علماء ، اولیاء اور کثیر عوام نے پڑھا ،
آج ھم بظاہر کچھ دیکھ کر یا محض دوسروں سے سن کر اھم فیصلے کر بیٹھتے ہیں ، اگر ھم دوسروں کے دلوں کے بھید جان لیں تو ھماری زبانیں گونگی ھو جائیں....

Thursday, December 25, 2014

Regret Nothing

REGRET NOTHING

Human life is full of such things which make him not to feel good. Anytime you sit in a calm, quiet, least lightened room and think of your past. Start from your age when you became just conscious of your surroundings leading to the age you're enjoying now.

Recall all your memories. All fights, all happinesses, all sorrows , all regrets and all those things also you don't want to happen again. You'll find that there'll be a lot of things you don't want to recall but in spite of all the resistance you offer in recalling them , they are recalled again and again.

A lot of things belong to that part of life you regret upon. Regret of doing something wrong, regret of losing something or someone, regret to lose your dear ones and it can be a regret of getting a supplementary in your exams.

All these feelings, emotions and mental conditions are said to be normal as a normal human has to pass through all these filters of his life to make him refined further.

But there comes a problem. Some people are so much indulged in the feelings of regret and sorrow that they leave their effort for further life. Even they leave their wish to live further in this beautiful world. That's a dangerous thing and should be avoided in any case.

What we think of or dream of never always come true. There is a Super Power WHO knows well what's beneficial for us what's not. He has the knowledge of what is revealed and what is hidden.

If we make our firm belief on this thing that Allah knows better and also knows what's beneficial for us , then most of our problems are solved.

This belief will be a "Driving Force" for those have lost their 'acceleration'.For those who have lost their interest in this world and even lost their wish to live.

So, never ever get driven by your emotions. Drive them yourself. Make your belief firm that the way you're living in this world is the most beneficial way Allah has decided for you.

Keep Away from sorrows, Step Ahead ,

 "THE WHOLE WORLD IS YOURS".

Umair A. Mirza

Monday, November 3, 2014

کیا ہم مسلمان ہیں؟

کیا ہم مسلمان ہیں؟

ہم صبح و شام راگ الاپتے رہتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں ، اسلام ھمارا مذھب ہے ، نبئ اکرم ﷺ کے امتی   ہیں اور اللّہ وحدہ پر ایمان لانے والے ہیں لیکن کیا کبھی ھم نے اس بات پر غور کیا کہ کیا ہم واقعتاً مسلمان ہیں ۔


چند منٹ کے لیے اکیلے میں آنکھیں بند کر کے سوچنا شروع کریں ، زیادہ دور نہ جائیں ، صرف ایک دن کی کارگزاری کا احتساب کرنا شروع کریں۔ صبح سے شام تک اپنی تمام حرکات و سکنات کا جائزہ لیں ۔ اپنے ہاتھوں سے سرزد ہونے والے افعال ، اپنی زبان سے نکلنے والے الفاظ ، اپنی آنکھوں سے دیکھے جانے والے مناظر اور کانوں کے پردوں سے ٹکرانے والی آوازوں کا محاسبہ کریں ۔ اپنے ذہن کے پراگندہ خیالات کو بھی اس تحریک میں شامل کر لیں تو سونے پر سہاگہ ہوگا۔ اور اگر ان سب کا جائزہ لینے کے  دی جائے تو وہ 5 سے 10 فیصد سے تجاوز ہرگز ہرگز نہیں کرے گی۔figure بعد کوئی 


   یہ ہمارا حال ہے کہ نبیﷺ کے عشق سے سرشار ، نعرہ لا الہ پر فدا ہونے والے ، اسلام کا ہر محاذ پر دفاع کرنے والوں کی خود زندگی میں اسلام کا حصہ چند فیصد سے زیادہ نہیں ۔


تو پھر ہم کہاں کے مسلمان ہیں ۔ ہمارے کان موسیقی ، غلیظ گالیاں اور اول فول سننے کے عادی ہوچکے ہیں اور ذکر الہی کی آواز ان پر گراں گزرتی ہے۔ ہماری آنکھیں ایسے مناظر دیکھتی ہیں جو کسی مسلمان کو دیکھنا گوارا نہیں مگر ہم ہٹ دھرمی سے وہ سب کچھ دیکھتے چلے جاتے ہیں مگر ان آنکھوں پر گراں ہیں تو قرآن کے الفاظ ۔ دنیا کے ہر ایک مسئلے پر چاہے ہمارا اس سے کوئی تعلق ہو یا نہ ہو ہماری زبان کی تمام گرہیں کھل جائیں مگر جب تذکرہ اسلام کا ہو ، دین کا ہو ، میرے پروردگار اور اس کے رسولﷺ کا ہو توگویا چپ لگ جائے۔ یہ ہاتھ اور یہ تمام جسم اس پروردگار کے احکامات بجا لانے سے عاری ہیں جس نے اس ناچیز کو اپنا نائب بنا کر اس زمین پر بھیجا۔


مگر اس سب کے بااوجود ہم مسلمان ہیں اور وہ بھی سب سے بڑے ۔ نہ ہم سے بڑا کوئی مسلمان پیدا ہوا اور نہ ہی ہوگا۔ ہم جیسا متقی اور ایمان دار کسی ماں نے جنا نہیں اور کسی زمین نے سہا نہیں۔ تو کیوں نہ ہم اپنا محاسبہ کریں۔ گریبان کھولنا ہے تو اپنا کھولیں۔ دوسروں کے گریبانوں کو چھوڑ دیں۔ اگر اپنا گریبان ہی کھول لیں تو شاید کسی اور کے گریبان کو کھولنے کا حوصلہ ہی نہ رہے مگر ایک مسئلہ ہے کہ ’’ میرا گریبان تو پاک ہے‘‘۔

عمیر اے مرزاؔ

Saturday, September 27, 2014

مقدس عمارتیں

:مقدس  عمارتیں:


ملک کے سیاسی حالات اس وقت نقطۂ ابال کو چھو بیٹھے ھیں۔ اپوزیشن اور حکومت اور کئی فا ئدہ اٹھانے والے ایک طرف جب کہ دھرنہ اینڈ کمپنی دوسری طرف ۔ دونوں ایک دوسرے کے خلاف عرصہ 44 دن سے برسر پیکار ھیں۔ دھرنے والوں کے کچھ مطالبے ھیں جنہیں حکومت ماننے کو تیار نھیں اور کچھ حکومت کی باتیں ھیں جنہیں دھرنے والے مانتے نظر نہیں آتے۔ گویا ڈيڈ لاک برقرار ھے اور مذاکرات بے نتیجہ ثابت ھوچکے ھیں۔


ان دھرنوں کے دوران ایک بڑی ہی قابل ذکر چیز نظر آئی کہ کہ جب مظاھرین اسلام آباد کی طرف  روانہ ھوئے تو سب سے پہلے ريڈ زون کو "مقدس زون"  قرار ديا گیا اور اس کا استحصال کرنے والوں کو قرار واقعی سزا کا حقدار ٹھہرایا گیا ۔  مگر خیر حکومت مظاھرین کے آگے بے بس ھوتی نظر آئی ، مظاھرین اور ان کی لیڈر شپ کو بھی اس کا احساس ہوا تو انھوں نے ريڈ زون کی اس "مقدس گائے "کو ذبح کرنے کا فیصلہ کر لیا ۔ عوامی طاقت کے سامنے   حکومت نے بھی مزاحمت نہ کرنے کا اچھا فیصلہ کیا  ۔ سو نہ مزاحمت ہوئی اور اس مقدس گائے کو با آسانی ذبح کرنے دیا گیا ۔


مگر بات یہاں تک ہی نہ ٹھہری۔ مظاھرین اس کے بعد پارلیمنٹ کے بیرونی جنگلے پر حملہ آور ہوئے اور اسے بلآخر توڑ  دیا گیا ۔ اس کے علاوہ تصاویر میں ایک اور چیز کو بھی پذیرائی ملی اور وہ تھی  " سپریم کورٹ آف پاکستان " کے بورڈ پر سوکھنے کے لئے لٹکائی گئی شلوار اور قمیض ۔ اس کے علاوہ مظاھرین نے ایوان صدر اور وزیر اعظم ہاؤس کے سامنے جانے کی کوششیں بھی کیں۔


ان سب واقعات کے دوران حکومت کی جانب سے ایک رٹ بار بار لگائی گئی  ۔ اخبار کیا ، ریڈیو کیا ، ٹی وی کیا گویا ہر جگہ اس رٹ کو خوب چھاپا ، سنایا اور دکھایا گیا کہ مظاھرین پارلیمنٹ اور دیگر " مقدس عمارتوں " کا احترام کریں اور ان کا استحصال نہ کریں ۔ یہ مقدس املاک ہیں جن کا احترام فرض ہے اور چاہے سینکڑوں لوگ مارنے پڑ جائیں ھم اس مقدس گائے کو ذبح نہیں ہونے دیں گے۔


خیر لوگ پارلیمنٹ کی جانب پیش قدمی کرتے ہیں ، ان پر Tear Gas کی شیلنگ کی جاتی ہے ، ربڑ کی اور اصل گولیوں سے فائرنگ کی جاتی ہے ۔ ہزاروں زايد المیعاد شیل فائر کیے جاتے ہیں ، لوگ زخمی اور ہلاک ہوتے ہیں ۔ بچے ماؤں سے جدا ہوجاتے ہیں اور پھر اگلے ہی دن ٹی وی اخباروں پر کرسی کے رسیا تمام سیاست دان اور کچھ مفاد پرست ملّا بھی پارلیمنٹ پر حملے کو حرام قرار دیتے  ہیں ، مظاھرین کو بلوائیوں کا خطاب ملتا ہے اور اس " مقدس گائے "  پر حملہ آور ہونے والوں کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کا کہا جاتا ہے ۔


مگر ان عقل کے اندھے  عقل کے اندھے ،  کرسی کے رسیا ، لالچی ، خود غرض ، ایمان فروش ، ضمیر فروش اور بکے ہوۓ سیاست دانوں کو کون جا کر سمجھاۓ کہ جناب جب پیٹ خالی ہوں ، کھانا ملنے کا پتہ نہیں کہ ملے یا نہ ملے ، جب ماوٴں کی آنکھوں کے سامنے ان کے جگر گوشوں کے قتل سرعام آزاد گھومتے نظر آئیں ، جب بیٹیوں کے باپ ان سے چھین لیے جائیں ، جس ملک کے بچے بے گناہ یتیم کر دیۓ جائیں ، جب بہنوں کے سہاگ بلا وجہ اجاڑ دیۓ جائیں  ، جب تمام ملک کے چیدہ چیدە اور اعلی   ترین چور اسمبلیوں میں پناہ لیے بیٹھے ہوں اور اشتہاری ان کے دست راست ہوں تب ان مقدس عمارتوں کی کوئی حیثیت نہیں رہتی ۔ تب یہ پارلیمنٹ ملک کے ماتھے پر سیاہ دھبہ معلوم ہوتا ہے  ، تب یہ وزیر اعظم ہاوٴس ملک کے خادم کا گھر کم اور بادشاہ کا گھر زیادہ معلوم ہوتا ہے ، تب یہ عمارتیں وہ محل خیال ہوتی ہیں جن کو بنانے میں سیمنٹ اور ریت نہیں بکہ عوام کا گوشت اور خون استعمال ہوا ہے ۔


 تو پھر حملے کیوں نہ ہوں ، جب کسی باپ کو اس کے بیٹے کا قاتل مقدس ایوان میں سفید امپورٹڈ سوٹ پہنے بیٹھا نظر آۓ گا اور وہ کروڑوں کی گاڑیوں سے شاہانہ انداز سے اس کا منہ چڑا رہا ہو ، جب یتیم بچوں کو ان کے باپ کا قاتل  BMW ، MERCEDES اور RANGE ROVER میں بیٹھا نظر آۓ  ، جب بہنوں کو ان کے سہاگ اجاڑنے والے ہیلی کاپٹروں میں پھرتے نظر آئیں ، وہ جسے روزانہ 60 روپے نہ ملیں اور اپنے 60000 فی منٹ کے حساب سے بلاوجہ پارلیمنٹ پر خرچ ہوتے نظر آئیں وہ تو حملہ آور بھی ہوگا ، حساب بھی مانگے گا ، بآسانی ورغلایا بھی جاۓ گا اور اس " مقدس گاۓ " کا استحصال بھی کرے گا۔اس کا ورغلایا جانا بھی ٹھیک ، اس کا حملہ کرنا بھی ٹھیک ، اس کا حساب مانگنا بھی ٹھیک اور اس کا حکومت گرانا بھی ٹھیک۔


عدلیہ کو دیکھ لیں ۔ کسی کا کوئی فرد قتل ہو جاۓ ، کئ کئ نسلوں تک انصاف نہیں ملتا ، جج بک جاتے ہیں اور وہ غریب مائی جس کا شوھر یا بیٹا قتل ہوا ہوتا ہے سالوں عدالت کے دھکے کھا کھا کر اسی عدالت کی کسی راہداری میں جان دے دیتی ہے ۔ تو اس ملک میں عدالت کے تقدس کا خیال قطعی ایک خام خیال ہے ۔ سپریم کورٹ کے بورڈ پر شلوار اور قمیض نظر آئی تو فوری نوٹس لیا مگر ماڈل ٹاؤن میں 14 لاشے گرتے ہیں تو شاید پتہ ہی نہیں چلا ۔ نہ کوئی نوٹس ، نہ کوئی ایکشن۔


شاہراہ دستور پر عوام کی وجہ سے بندش ہے تو انہیں مار مار کر خالی کروائی جاۓ اور اگر کنٹینر لگا کر پورا شہر بند کر دیا گیا ہے تو کوئی بات نہیں ۔ آخر کب تک یہ دھرے قانون چلتے رہیں گے؟


اگر MPA یا MNA عوام کا مال کھا گئے تو کوئی بات نہیں اوور اگر عوام نے ان کا محاسبہ کرنے کا سوچا بھی تو پارلیمنٹ کی بے حرمتی ۔۔۔۔۔۔


MPA/MNA امیر سے امیر تر ہو رہا ہے تو ٹھیک اوور اگر کسی غریب نے اس کا گریبان بھی پکڑنے کی کوشش کی تو پارلیمنٹ کی بے حرمتی ۔ اگر لوگوں نے پارلیمنٹ کی طرف منہ کر کے رفع حاجت کرنے کی کوشش بھی کی تو پارلیمنٹ کی بے حرمتی ۔۔۔۔۔۔


اے حکمرانو ! اپنی آنکھیں کھولو ، عوام کی سطح پر آکر دیکھو ، عوام کا سوچو اور سوچو کہ اگر آپ ان کی جگہ ہوتے تو کیا آپ کا ردعمل اس سے بھی زیادہ شدید نہ ہوتا ؟ یقیناً ! 


جب لوگوں  کو ان عمارتوں سے غم ، ناانصافی مہنگائی اور دیگر مصائب ملیں گے تو حملے تو ہوں گے ، عوام جنگلے بھی توڑیں گے ، اندر داخل بھی ہوں گے اور آپ کے گریبان بھی  پکڑیں گے ۔ تو گویا اس سے پہلے پہلے آپ اپنی اصلا ح کرلیں کہیں ایسا نہ ہو کہ پھر آپ کو پناہ کی جگہ ہی نہ ملے ۔


 

اور آخر میں نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی ایک حدیث کا ذکر کروں گا : حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ کا طواف فرما رہے تھے۔اور فرما رہے تھے تو کیا عمدہ ہے اور تیری خوشبو کس قدر اچھی ہےتو کتنا صاحب عظمت ہےاور تیری حرمت کتنی عظیم ہےقسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کی جان ہے،مؤمن کی حرمت اس کے مال و جان کی حرمت اللہ کے نزدیک تیری حرمت سے عظیم تر ہےاور مومن کے ساتھ بد گمانی بھی اسی طرح حرام ہے ہمیں حکم ہے کہ مومن کے ساتھ اچھا گمان کریں(حدیث شریف 3932،صفہ 271،272،جلد3،سنن ابن ماجہ شریف)  


سو یە مقدس املاک کا بہانہ  چھوڑیں ۔ ان کی حفاظت کی خاطر ایک لاشہ گرانا بھی جائز نہیں اور آپ یہ ناجائز کام کئی بار کرچکے ہیں ۔ کسی پارلیمنٹ کی حرمت ایک مسلمان سے بھی زیادە نہیں ۔ جب میرے نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرما دیا تو نہ چاہتے ہوۓ بھی ماننا تو پڑے گا ۔ 


ان تمام باتوں پر غور کریں اور ان سب کو ذہن میں رکھتے ہوۓ قدم اٹھائیں اگر آپ واقعی ملک بچانے کے خواہاں ہیں ۔  


الله ھمارا اور اس ملک کا حامی و ناصر ہو ۔


P.S: بلاگ کے بارے میں اپنی راۓ ضرور دیجیۓ۔عمیر افضل مرزا  

E-mail:umair-mirza@hotmail.com